۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
مجتبیٰ شجاعی

حوزه/ افسوس صد افسوس دور حاضر میں والدین اپنے بچوں کوانتہائی کم سنی میں تباہ کن اداروں میں داخل کرکے بری الذمہ ہوجاتے ہیں ۔اور ان اداروں میں بچوں کو مغربی طرز کے خیالات،افکارات اور رحجانات میں پروان چڑھایا جاتا ہے جو بچے کو نفسانی ہوس کے ایک محدود دائرے میں قید کرکے اس کی شخصیت کو برباد کردیتے ہیں ۔

از قلم: مجتبیٰ شجاعی

ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زر خیز ہے ساقی (علامہ اقبال)

حوزہ نیوز ایجنسی | 20 نومبر کو پوری دنیا میں ںبچوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے یہ دن منانے کابنیادی مقصد یہ ہے کہ اس دن بچوں کی صحیح تعلیم وتربیت اور ان کے حقوق کے حوالے سے شعور اجاگر کیا جائے تاکہ بچہ بڑا ہوکر معاشرے کا ایک بہترین انسان اور ذمہ دار شہری بن جائے جب بچہ ایک ذمہ دار شہری بن جائے تبھی اس بات کو یقینی بنایا جاسکتا ہے کہ معاشرہ بھی صاف و پاک بن جائے ۔حدیث نبوی ہے کہ” بچہ فطرت اسلام پر ہی پیدا ہوتا ہے“۔چونکہ اسلام اپنے ماننے والوں کو دو طرح کے حقوق بجالانے کا حکم دیتا ہے ایک حقوق اﷲ اور دوسرا حقوق العباد ۔قرآن و احادیث کی رو سے حقوق اﷲ کے بعد سب سے زیادہ اہمیت جس چیز پر دی گئی ہی وہ حقوق العباد ہے ۔حقوق العباد سے مراد بندوں پر بندوں کے حقوق یعنی والدین کا اولاد پر حق ،اولاد کا ولدین پر حق ،شوہر کا بیوی اور بیوی کا شوہر پر اسی طرح ہمسایہ کا ہمسایہ پر حق ،استاد کا شاگر پر حق اور شاگرد کا استاد پر حق ،عالم کا حق، اپنوں اور بیگانوں کا حق وغیرہ ۔۔۔روایات میں ہے کہ حقوق اﷲ میںاگر کوتاہی ہوگی تو اﷲ تبارک و تعالیٰ بندہ کی عجز و انکساری اور توبہ و استغفارکے بعد معاف کرسکتا ہے لیکن اگر حقوق العباد میں کوئی کوتاہی ہوگی جب تک بندہ معاف نہیں کرسکتا تب تک اﷲ بھی معاف نہیں کرے گا۔گویا از لحاظ تعلیمات اسلامی حقوق اﷲ سے زیادہ حقوق العباد پر زور دیا گیا ہے حقوق العباد کی پاسداری کئے بغیر حقوق اﷲ بجالانے کی کوئی قدر و قیمت نہیں۔

پس دین اسلام انسانی حقوق کا علمبرداردین ہے حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی معاشرے مسلک مذہب یا ملت سے تعلق رکھنے والے افراد اگرتعصب اور حسد کی عینک اُتار کر اسلامی قواعد و قوانین کا بغورمطالعہ کریں تو انہیں صاف ظاہر ہوگا کہ مغرب نے جو انسانی حقوق کا تصور پیش کیا ہے وہ بالکل ناقص ہے اور اسلام جو انسانی حقوق کاتصور پیش کرتا ہے وہی اصل اور اکمل ہے۔

بہر حال دین اسلام حقوق العباد میں بچوں کے حقوق کا بھی تعین کررہا ہے اور بچے کو صالح اور ایک ذمہ دار شہری بنانے کے اصول و قواعد بیان کررہا ہے ۔اسلام وہ واحد دین ہے جو نہ صرف بچے کی ولادت کے بعد بلکہ دوران حمل ہی بچے کی تربیت کامنشور پیش کررہاہے اور بچے کو اچھا انسان بنانے کے لئے ماں کواولین ذمہ دار قراردے رہا ہے۔بچے کی تعلیم و تربیت میں اس کے والدین کاسب سے اہم رول ہوتا ہے ماں کی گود بچے کا اولین درسگاہ ہوتا ہے بچے کے کردار کو نکھارنے اور اس کی انسانیت کو سجانے اور سنوارنے میں والدین خصوصاً ماں کا بنیادی کردار ہوتا ہے ۔والدین کے علاوہ بچے کے نشو نما میں استاد کا بھی کلیدی کردار ہوتا ہے جس طرح کے ماحول میں بچوں کی نشو نما ہوتی ہے ایسے ہی اثرات ان کے دل و دماغ پر نقش ہوجاتے ہے ںوالدین اور استاد اگر باکردار ہو تو بچہ بھی نیک کردار بن جاتا ہے ۔پیغمبر اکرم کا ارشاد ہے کہ ”بچوں سے محبت کرو اور ان کے ساتھ الفت و محبت سے پیش آو۔“آپ فرماتے ہیں کہ” جو شخص بچوں پر مہربانی اور بڑوں کا احترام نہ کریں وہ مجھ سے نہیں ہے“۔والدین اپنے بچوں سے محبت کے ذریعہ بہترین تربیت کرسکتے ہیں ۔جو بچے کو کمال تک پہنچاسکتا ہے۔

افسوس صد افسوس دور حاضر میں والدین اپنے بچوں کوانتہائی کم سنی میں تباہ کن اداروں میں داخل کرکے بری الذمہ ہوجاتے ہیں ۔اور ان اداروں میں بچوں کو مغربی طرز کے خیالات،افکارات اور رحجانات میں پروان چڑھایا جاتا ہے جو بچے کو نفسانی ہوس کے ایک محدود دائرے میں قید کرکے اس کی شخصیت کو برباد کردیتے ہیں ۔
بقول اکبر الہ آبادی 
طفل میں بو آئے کیا ماں باپ کے اطوار کی 
دودھ تو ڈبے کا ہے تعلیم ہے سرکار کی

آج اگرچہ عالمی سطح پر بچوں کا دن دھوم دھام سے منایا جاتا ہے اس سلسلے میں بچوں کے حقوق کا ڈھنڈورا زور وشور سے پیٹا جارہا ہے درحقیقت یہ دن منانے والے مفلوک الحال غریب اور مظلوم بچوں کے زخموں پر نمک پاشی کرتے ہیں ۔دنیا کے اکثر ممالک میں بچوں کے بنیادی حقوق پامال ہورہے ہیں بے دردی کے ساتھ ان کی زندگیاں چھینی جاتی ہیںگویا دھرتی پر ان کو جینے کا کوئی حق نہیں۔بچوں کے عالمی دن منانے کا مقصد اگر بچوں پر ظلم و تشدد روکنا ان کی تعلیم و تربیت و صحت کا خیال کرنا ،بچہ مزدوری اور جنسی زیادتی پر روک لگاناہے ۔تواس طرح کے اقدامات ستم رسیدہ مفلوک الحال، غریب ،مظلوم اور مستضعف بچوں کے لئے کیوں نہیں اٹھائے جارہے ہیں ۔آج کے دن انسانی حقوق کی علمبرداری کے جھوٹے دعویداروں سے اس سوال کا جواب طلب کریں کہ بچوںکا عالمی دن منانے کے باوجود فلسطین کے بچے اسرائیلی بربریت کا نشانہ کیوں بن رہے ہیں۔یمن کے بچے بے غور و کفن سڑکوں اور گلی کوچوں میںکیوں پڑے ہوئے ہیں ۔میانمارکے بچوں پر بے دریغ ظلم و تشدد کیوں ڈھایا جارہاہے ۔ہندوستان اور پاکستان کے بچے ریل پٹریوں ،بس اڈوں،پارکوں اورسڑکوں پرایک ایک دانے کے لئے کیوںترس رہے ہیں ۔ یمن اور برما میں کتنے بچے بھوک سے مررہے ہیں جن کے بدن پر لباس بھی نصیب نہیں ۔دنیا بھر میںلاکھوں معصوم کلیاں کھلنے سے پہلے کیوں مرجھا رہے ہیں ۔اگر دنیا میں بچوں کو اس طرح کے مسائل ومشکلات کا سامنا ہے تو اقوام عالم کو بچوں کا عالمی دن منانے میں شرم محسوس ہونی چاہئے ۔کیا بچوں کے حوالے سے مغرب کا یہی تصور ہے کہ انہیں گولیوں توپوں بموں اور بارود کا نشانہ بنا یا جائے ۔اگر ایسا نہیں تو پھرفلسطین و یمن سمیت دنیا کے دیگر ممالک میں جہاں سینکڑوں کی تعداد میں بچے زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ،جنگ بندی کے حوالے سے اقدامات کیوں نہیں اٹھائے جارہے ہیں۔دیرینہ حل طلب مسائل کا حل نکالنے میں اقوام متحدہ دیرکیوں کررہے ہیں۔اور بچوں کی فلاح و بہبود کے حوالے سے کوئی ٹھوس اقدامات کیوں نہیں اٹھائے جارہے ہیں۔ بچوں کے نشونما کو اجاگر کرنے اور ان کے مسائل و مشکلات کا ازالہ کرنے کے لئے یونیسیف ادارہ کا قیام عمل میں لایا گیا تو انہوں نے فلسطین ،یمن،افغانستان ،پاکستان،ہندوستان ،میانمار،عراق اور شام وغیرہ میں مارے گئے معصوم بچوں کے قاتلوںکے خلاف کونسا قدم اٹھایا بلکہ یہ ادارے ”الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے “ کا مصداق بنے ہوئے ہیں ۔اگر ادارہ یونیسیف بھی بچوں کی فلاح وبہبود کے حوالے سے کچھ نہ کرسکا تو بچوںکے عالمی دن منانے کا ڈرامہ بند ہونا چاہئے۔

بدنصیبی یہ ہے کہ ہمارے اسلامی معاشرے میں بھی بچوں کو وہ حقوق نہیں مل پارہے ہیں جس کا اسلام ہم سے تقاضا کررہا ہے ہم نے اپنے بچوں کی تباہی کا ساز و سامان اپنے ہی ہاتھوں سے تیار کرلیاہے ۔مغرب کی نقالی کرکے ہم نے اپنے لاڑلے بچوں کی تذلیل و تضحیک کروانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی ۔اپنے بچوں کو بدعنوانیت ،عریانیت ،بے شرمی،بیہودگی اور بے پردگی کی منڈی میں داو پر لگادیا ہے ۔اسلامی تہذیب و تمدن سے ننگ وعار محسوس کرتے ہوئے اپنے بچوں کی عصمت تار تار کردی ہے حقوق نسواں کے نام پر اور حقوق بشری کے نام پر اپنے بچوں کو ذلالت کے گرداب کی جانب دھکیل دیا ۔ان کے حلق میں مغرب نوازی کا طوق پہنا کر انہیں معاشرے میں کھلونے کے طور پر پیش کیا ۔اس کا ذمہ دار صرف والدین ہی نہیں بلکہ پورا معاشرہ ہے ۔امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں ”جو بچہ کسی قوم میں پرورش پاتا ہے اور برائی سے بچنے کے آداب نہیں سیکھتا تو اﷲ تعالیٰ اس قوم کو پہلی سزا یہ دیتا ہے کہ اسکے رزق میں کمی کردیتا ہے“۔گویا بچوں کی تربیت صرف انفرادی ذمہ داری نہیں بلکہ اجتماعی ذمہ داری بھی ہے ۔پیغمبر اسلام بچوں کے تربیت کو تین حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں ” بچہ سات سال تک سردار اور سات سال تک غلام اور سات سال تک وزیر ہوتا ہے “۔یعنی ان اکیس سالوں میں بچے تربیت کا محتاج ہوتے ہیں ۔بچوں کی تربیت کا اثر صد در صد فیصد قوم اور معاشرے پر ہوتا ہے علامہ اقبال ؒ بھی بچوں کی تربیت کے حوالے سے کہتے ہیںکہ ”اگر بچوں کی تربیت میں خامی رہ جائے تو تعمیر قوم وطن کی بنیاد میں خامی رہ جائیگی“۔

ہمارا معاشرہ اس قدر آلودہ ہوچکا ہے کہ مغرب پرست والدین اپنے بچوں کا عزت بازاروں میں سرعام نیلام کررہے ہیں ۔کتنی حماقت کی بات ہے کہ ہماری نو عمر بیٹیاں فیشن پرستی اور عریانیت کا مظہر بن کر گھر سے باہرمنحوس قدم رکھتے ہیںاور تنگ لباس پہن کر اپنے اعضاءکی نمائش کرتے ہیں اوربے غیرت والدین کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرتے ہوئے اس عریانیت پر فخر محسوس کررہے ہیں ۔اور یہی فخر سبب بن رہا ہے کہ ہماری بیٹیاں آئے روزجنسی زیادتی کا شکار بن رہے ہیں ۔

بچوں کا عالمی دن منانے سے بچوں کے حقوق کو بحال نہیں کیا جاسکتا ہے بلکہ جو ممالک یہ دن دھوم دھام سے منارہے ہیں اکثریہی ممالک یا تو بچوں کو تہذیبی یلغار کا شکار بنا کر ان کا عزت وعصمت تار تار کررہے ہیں یا پھر توپوں گولیوں اور بموں کا نشانہ بنا کر انہیں بے وقت موت کی نید سُلادیتے ہیں ۔ایسے ممالک اور ایسے والدین کا یہ دن منانے کا کوئی حق نہیں جو اپنے بچوں کے حقوق پامال کرنے میں پیش پیش ہیں ۔بچوں کے ساتھ محبت کا سب سے بہترین ذریعہ یہ ہے کہ ہم ان کی صحیح تربیت کریں اور ان کا تحفظ یقینی بنانے کے لئے کارگر اقدامات اٹھائیں اور ان ممالک کے ساتھ کھل کر نفرت وبیزاری کا اظہار کریں انہیں بے نقاب کریں جو دنیا کے بیشتر ممالک میں جنگ وجدال کا باعث بن رہے ہیں ۔اور امن و امان متاثر کررہے ہیں ۔

بقول علامہ اقبالؒ۔”ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زر خیز ہے ساقی “

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .